خواب بکھریں گے تو ہم کو بھی بکھرنا ہو گا
شب کی اک ایک اذیت سے گزرنا ہو گا
وہ ہمارے ہی رگ و پے میں نہاں رہتا ہے
اس کی تصدیق تو اک دن ہمیں کرنا ہو گا
اپنے خاکستر تن کو لیے کوچہ کوچہ
کیا ہواؤں کی طرح مجھ کو گزرنا ہو گا
ہمیں احباب کی بے لوث رفاقت کے سبب
وقت آئے گا تو بے موت بھی مرنا ہو گا
ہوں گے صحراؤں کے سناٹے نظر کی حد میں
کوئی وادی نہ کوئی خواب نہ جھرنا ہو گا
آئینہ آئینہ خود ساری دشائیں ہوں گی
عکس در عکس مگر ہم کو ابھرنا ہو گا
چیختے خوابوں کی تعبیر یہی کہتی ہے
ہو گی ہڑتال کہیں تو کہیں دھرنا ہو گا
انور مینائی
No comments:
Post a Comment