صفحات

Tuesday, 6 September 2022

اثاثہ نکلا جہاں سے وہیں سے نکلے گا

 اثاثہ نکلا جہاں سے وہیں سے نکلے گا

یہ دل کا سرقہ کسی مہ جبیں سے نکلے گا

جو عقدہ وہم و گماں میں الجھ کے بیٹھا ہے

مجھے یقیں ہے وہ پختہ یقیں سے نکلے گا

لٹا ہے جس کا بھی ایماں خدا کی بستی میں

کسی یہ پِیر یا گدی نشیں سے نکلے گا

گرے گی آ کے یہ منزل ہمارے قدموں میں

کہ اب کے قافلہ پوریں یقیں سے نکلے گا

مِرے بلند ہیں اتنے اصولِ بَیر آثم

مِرا قصیدہ مِرے نُکتہ چِیں سے نکلے گا


نثار آثم

No comments:

Post a Comment