اثاثہ نکلا جہاں سے وہیں سے نکلے گا
یہ دل کا سرقہ کسی مہ جبیں سے نکلے گا
جو عقدہ وہم و گماں میں الجھ کے بیٹھا ہے
مجھے یقیں ہے وہ پختہ یقیں سے نکلے گا
لٹا ہے جس کا بھی ایماں خدا کی بستی میں
کسی یہ پِیر یا گدی نشیں سے نکلے گا
گرے گی آ کے یہ منزل ہمارے قدموں میں
کہ اب کے قافلہ پوریں یقیں سے نکلے گا
مِرے بلند ہیں اتنے اصولِ بَیر آثم
مِرا قصیدہ مِرے نُکتہ چِیں سے نکلے گا
نثار آثم
No comments:
Post a Comment