صفحات

Tuesday, 16 December 2025

حیرت ہے ستم ڈھانا کیوں تجھ کو گورا ہے

 حیرت ہے ستم ڈھانا کیوں تجھ کو گورا ہے

ہم جبکہ ترے ہی ہیں اور تُو بھی ہمارا ہے

زنجیر بدلنے کا ہے شور رقیبوں میں

اس شوخ نے بن ٹھن کر گیسو جو سنوارا ہے

وعدہ تھا ترا جب تو جیتے رہے ہم ورنہ

گھٹ گھٹ کے جیے جانا کب کسی کو گوارا ہے

دنیا کی نگاہوں میں پایا ہے مقام اس نے

پھولوں کی طرح جس نے کانٹوں میں گزارا ہے

روکو نہ اسے لوگو طوفاں سے نپٹنے دو

للکار کے موجوں نے شاہد کو پکارا ہے


فضل حق شاہد عظیم آبادی

No comments:

Post a Comment