صفحات

Tuesday, 16 December 2025

جس بات کا خدشہ تھا وہی بات ہوئی ہے

 جس بات کا خدشہ تھا وہی بات ہوئی ہے

گھر دور بہت دور ہے جب رات ہوئی ہے

تا حد نظر وادئ ویراں کی زمیں پر

کل رات مسلسل گھنی برسات ہوئی ہے

پہلے کبھی دیکھا تو نہیں ہے تمہیں لیکن

محسوس یہ ہوتا ہے ملاقات ہوئی ہے

یوں ہم نے سنواری ہے یہ تحریر محبت

الفاظ کی نقطوں کی مدارات ہوئی ہے

ساحل پہ جو پہنچا مجھے دریا نے صدا دی

اس کھیل میں پہلے بھی تمہیں مات ہوئی ہے

احساس غم ذات نے چپی سی لگا دی

جس وقت زمانے سے ملاقات ہوئی ہے


رشید افروز

No comments:

Post a Comment