دھوپ ڈھل جاتی ہے سائے پہ زوال آتا ہے
مٹنے لگتا ہوں تو بننے کا خیال آتا ہے
رات کٹ جاتی ہے آنکھوں کو چراغاں کرتے
دن نکلتا ہے تو چہرے پہ جمال آتا ہے
پہلے اڑتا ہے محبت کے چمن میں تنہا
پھر کسی شام بہت ہو کے نڈھال آتا ہے
پہلے جم جاتا ہے آنکھوں کے دریچے میں کہیں
پھر مرے خون میں اک دم سے اچھال آتا ہے
جب میں کہتا ہوں محبت سے محبت کر لو
مجھ سے کہتا ہے کہ اس پر بھی زوال آتا ہے
جنگلوں سے جو گزرتا ہوں تو آتی ہے صدا
پیڑ پودوں کو بھی رونے کا کمال آتا ہے
میں چلا جاتا ہوں صیاد کا ساتھی بن کر
پیچھے پیچھے مرے صیاد کا جال آتا ہے
شہباز رضوی
No comments:
Post a Comment