حیرت ہے ستم ڈھانا کیوں تجھ کو گورا ہے
ہم جبکہ ترے ہی ہیں اور تُو بھی ہمارا ہے
زنجیر بدلنے کا ہے شور رقیبوں میں
اس شوخ نے بن ٹھن کر گیسو جو سنوارا ہے
وعدہ تھا ترا جب تو جیتے رہے ہم ورنہ
گھٹ گھٹ کے جیے جانا کب کسی کو گوارا ہے
دنیا کی نگاہوں میں پایا ہے مقام اس نے
پھولوں کی طرح جس نے کانٹوں میں گزارا ہے
روکو نہ اسے لوگو طوفاں سے نپٹنے دو
للکار کے موجوں نے شاہد کو پکارا ہے
فضل حق شاہد عظیم آبادی
No comments:
Post a Comment