رات بھیگے گی ابھی اور سویرا ہو گا
تب کہیں جا کے امیدوں کا سویرا ہو گا
میں ہوں اک طائرِ آزاد، مجھے کیا معلوم
دن کہاں بیتے، کہاں رین بسیرا ہو گا
جیتے جی ان سے رفاقت کے بنا لے اسباب
حشر کی بھیڑ میں کوئی بھی نہ تیرا ہو گا
دفعتاً قوسِ قزح چرخ پہ اُبھری ہو گی
جب بھی شیرازۂ رنگ اس نے بکھیرا ہو گا
وقت ہے کر لے طلب نیک عمل کے دیپک
قبر کی گود میں اے دوست اندھیرا ہو گا
جس کے سینے میں ہیں آقاؐ کی محبت کے چراغ
قبر میں اس کی تو ہرگز نہ اندھیرا ہو گا
ایسا دنیا میں نہ ہو گا کوئی انساں انور
جس کو آلام و مصیبت نے نہ گھیرا ہو گا
انور صادقی
عبدالحمید
No comments:
Post a Comment