Tuesday, 7 July 2020

میں غم اجال اجال کر خوشی میں ڈھالتا رہا

تمام "رات" آنسوؤں سے "غم" اجالتا رہا
میں غم اجال اجال کر خوشی میں ڈھالتا رہا
جوان میری ہمتیں، بلند میرے حوصلے
حصار" توڑتا رہا،۔۔ "کمند" ڈالتا رہا"
بہت ہی تلخ "تجربہ" تمہاری بزم میں ہوا
ہر آدمی مِری "انا" کے "بَل" نکالتا رہا
ہیں التوا کی گود کے پلے سب اس کے مسئلے
کسی کو "حل" نہیں کیا،۔ ہمیشہ "ٹالتا" رہا
تِرے خلاف اس لیے مِری زباں نہ کھل سکی
میں اپنی خامیوں پہ بھی "نگاہ" ڈالتا رہا
خیال یار تیری نگہداشت اس طرح ہوئی
دماغ تھک کے سو گیا تو دل سنبھالتارہا
حفیظؔ کیا سناؤں اپنی خواہشوں کی داستاں
پلا پلا کے دودھ کتنے "سانپ" پالتا رہا

حفیظ میرٹھی

No comments:

Post a Comment