چہرے پہ چمچاتی ہوئی "دھوپ" مر گئی
سورج کو ڈھلتا دیکھ کے پھر شام ڈر گئی
مبہوت سے کھڑے رہے سب بس کی لائن میں
کولہے "اچھالتی" ہوئی "بجلی" گزر گئی
سورج وہی تھا دھوپ وہی شہر بھی وہی
خواہش سکھانے رکھی تھی کوٹھے پہ دوپہر
اب شام ہو چلی میاں دیکھو کدھر گئی
تحلیل ہو گئی ہیں "ہوا" میں اداسیاں
خالی جگہ جو رہ گئی، "تنہائی" بھر گئی
چہرے بغیر نکلا تھا اس کے مکان سے
رسوائیوں کی حد سے بھی آگے خبر گئی
عادل منصوری
No comments:
Post a Comment