Thursday, 9 July 2020

گاؤں سے چل پڑے تجھے ملنے کے چاؤ میں

گاؤں سے چل پڑے تجھے ملنے کے چاؤ میں
دریا" بھی ساتھ رکھ لیا کاغذ کی "ناؤ" میں"
دونوں کو "شہر" آ کے اچانک یہ کیا ہوا؟
دونوں نے عشق چھوڑ دیا رکھ رکھاؤ میں
میں جس کو چاہتا ہوں لگاتا ہوں اس کو آگ
پھر خود بھی کُودتا ہوں اسی کے الاؤ میں
تیری کسک رہے گی ہمیشہ بدن کے ساتھ
اتنا نمک بھروں گا ترے بخشے گھاؤ میں
مرتا نہیں ہے کوئی محبت کے ترک سے
تھوڑا اضافہ ہوتا ہے دل کے "دباؤ" میں
تھی خودکشی حرام سو مر بھی نہیں سکے
غیرت کو بیچتے رہے گندم کے بھاؤ میں

احمد عطاءاللہ

No comments:

Post a Comment