Tuesday, 7 July 2020

مدت ہوئی نکلا تھا اب جی میں ہے گھر جاؤں

راہوں میں ٹھہر جاؤں، منزل سے گزر جاؤں
کچھ اور بھٹک لوں میں، حسرت میں نہ مر جاؤں
ہر "راہ" کا عالم اور، ہر "گام" پہ سو سو رنگ
سوچا کہ "اِدھر" جاؤں، چاہا کہ "اُدھر" جاؤں
کچھ اور کھٹک تھی تب، اب اور کسک سی ہے
مدت ہوئی نکلا تھا، اب جی میں ہے گھر جاؤں
ویرانئ "منزل" کا "افسانہ" ہی کہہ ڈالوں
کوئی تو "سبق" سیکھے، کچھ "کام" تو کر جاؤں
میں "گردِ سفر" بہتر، میں "خاک" سہی راحیل
وہ بھی تو "اڑائے" گا، خود کیوں نہ بکھر جاؤں

راحیل فاروق

No comments:

Post a Comment