Wednesday, 8 July 2020

طوفان جو کشتی کے نگہبان ہوئے ہیں

طوفان جو کشتی کے "نگہبان" ہوئے ہیں
یہ صرف کناروں کے ہی نقصان ہوئے ہیں
اک "عمر" کٹی راہ کے "خاروں" سے الجھتے
تب جا کے یہ رستے کہیں "آسان" ہوئے ہیں
جب "سامنے" رہتا ہو "حقیقت" کا سمندر
خوابوں کے "جزیرے" بھی پریشان ہوئے ہیں
دو "پل" کے لیے ہاتھ "ترا" ہاتھ میں آیا
دو "پل" یہی سو سال کا "سامان" ہوئے ہیں
چاہے" گا بھلا کون اسے "مثل" ہماری؟"
ہم شہر میں اس شخص کی "پہچان" ہوئے ہیں
کس "درجہ" اذیت ہے یہ "رشتوں" کا بدلنا
ہم گھر کے مکیں گھر میں ہی مہمان ہوئے ہیں
یہ "بات" غلط ہے، کہ "خسارہ" ہے محبت
ایسا بھی نہیں "سب" کو ہی "نقصان" ہوئے ہیں
دیتے تھے جو سانسوں کو بھی چلنے میں سہارے
مجبورئ "حالات" میں "انجان" ہوئے ہیں

فوزیہ شیخ 

No comments:

Post a Comment