Wednesday, 8 July 2020

خطرے کی گھنٹیوں سے بھاگے ہوئے

خطرے کی گھنٹیوں سے بھاگے ہوئے
خواب کی دستکوں سے بھاگے ہوئے
اپنی گلیوں میں آ کے مارے گئے
اجنبی سرحدوں سے بھاگے ہوئے
ڈھونڈتے پھرتے ہیں نئے چہرے
ہم عجائب گھروں سے بھاگے ہوئے
سرخ ساڑھی کے پیچ و خم میں رہے
ان گنت پگڑیوں سے بھاگے ہوئے
نشے کی گھاٹیوں میں کھوئے رہے
زندگی کے دکھوں سے بھاگے ہوئے
اس کی صحرا مزاجیوں کے سبب
ہم کھلے پانیوں سے بھاگے ہوئے
شاہ زادی! تُو جنگ🤼 چاہتی ہے
اور ہم لشکروں سے بھاگے ہوئے

راز احتشام

No comments:

Post a Comment