جنم جنم کی پیاس
سمندر کے کنارے پر کھڑا ہوں اور پیاسا ہوں
کسی صورت تو آخر تشنگی اپنی مٹانی ہے
سمندر مجھ میں آ جائے
کہ میں اس میں سما جاؤں
سمندر کوزہ لے کر دستِ ساقی کی طرح اٹھا
تو بے تابانہ ساحل سے بڑی قوت سے میں جھپٹا
اچانک ایک سرکش موج بھی میری طرف لپکی
پکاری؛ ٹھہر! تیری پیاس بھی سودا ہے جینے کا
تِرے سینے کی دھرتی میں یہ ساگر سوکھ جائے گا
کنویں پر تھک کے میں بیٹھا ہوا ہوں اور پیاسا ہوں
بہت گہرائی سے پانی مجھے آواز دیتا ہے
کہاں گم ہو گئے تھے جا کے انسانوں کے جنگل میں
نہ جانے کب سے بیٹھے رو رہے ہو پیاس کے مارے
بہت تنہا ہو دنیا میں تمہیں تم تک میں پہنچا دوں
مگر چُلّو کو ہونٹوں سے لگاتے ہی اک اور پیاسا
(جو زیرآب تھا) ناگاہ سطح آب پر آیا
پکارا؛ ٹھہر، مت پینا کہ یہ ٹھہرا ہوا پانی
ارے زہراب ہے تیرے ہی اشکوں کا ہلاہل ہے
نہ جانے بند ہے کب سے ترے سینے کے محبس میں
شہاب جعفری
No comments:
Post a Comment