Tuesday, 2 August 2022

سمندر کے کنارے پر کھڑا ہوں اور پیاسا ہوں

 جنم جنم کی پیاس


سمندر کے کنارے پر کھڑا ہوں اور پیاسا ہوں

کسی صورت تو آخر تشنگی اپنی مٹانی ہے

سمندر مجھ میں آ جائے 

کہ میں اس میں سما جاؤں

سمندر کوزہ لے کر دستِ ساقی کی طرح اٹھا

تو بے تابانہ ساحل سے بڑی قوت سے میں جھپٹا

اچانک ایک سرکش موج بھی میری طرف لپکی


پکاری؛ ٹھہر! تیری پیاس بھی سودا ہے جینے کا

تِرے سینے کی دھرتی میں یہ ساگر سوکھ جائے گا

کنویں پر تھک کے میں بیٹھا ہوا ہوں اور پیاسا ہوں

بہت گہرائی سے پانی مجھے آواز دیتا ہے

کہاں گم ہو گئے تھے جا کے انسانوں کے جنگل میں

نہ جانے کب سے بیٹھے رو رہے ہو پیاس کے مارے

بہت تنہا ہو دنیا میں تمہیں تم تک میں پہنچا دوں

مگر چُلّو کو ہونٹوں سے لگاتے ہی اک اور پیاسا


(جو زیرآب تھا) ناگاہ سطح آب پر آیا

پکارا؛ ٹھہر، مت پینا کہ یہ ٹھہرا ہوا پانی

ارے زہراب ہے تیرے ہی اشکوں کا ہلاہل ہے

نہ جانے بند ہے کب سے ترے سینے کے محبس میں


شہاب جعفری

No comments:

Post a Comment