Tuesday, 2 August 2022

نہ فلک ہو گا نہ یہ کوچۂ قاتل ہو گا

 نہ فلک ہو گا نہ یہ کوچۂ قاتل ہو گا

مِرے کہنے میں کسی دن جو مِرا دل ہو گا

جب نمایاں وہ سوار رہِ منزل ہو گا

نہ تو میں آپ میں ہوں گا نہ مِرا دل ہو گا

آدھی رات آ گئی بس بس دل بے تاب سنبھل

ہم سمجھتے ہیں جو اس کرب کا حاصل ہو گا

رخصت اے وحشت تنہائی و غربت! رخصت

خوف ہی کیا ہے جو ہمراہ مِرے دل ہو گا

رات کا خواب نہیں جس کی ہر اک دے تعبیر

یہ وہ ارمان ہے پورا جو بہ مشکل ہو گا

تیرا کیا ذکر ہے زنداں کی ہلے گی دیوار

نالہ کش جب کوئی پابند سلاسل ہو گا

ٹال دیں میں نے یہ کہہ کہہ کے ضدیں بچپن کی

آئینہ بھی کوئی شے ہے جو مقابل ہو گا

ڈوبنے جائے گا شاید کوئی مایوس وصال

مجمع عام سنا ہے لب ساحل ہو گا

چودھواں سال اسے دیتا ہے مژدہ عالم

لے مبارک ہو کہ اب تو مہِ کامل ہو گا


عالم لکھنوی

No comments:

Post a Comment