Sunday, 4 September 2022

کل کا منظر بھی وہی تھا کہ دگر تھا کیا تھا

 کل کا منظر بھی وہی تھا کہ دِگر تھا کیا تھا

قابل دید تھا یا وارِ نظر تھا، کیا تھا

مجھ میں پنہاں کوئی معصوم بشر تھا کیا تھا

وقتِ آغاز میں انجام کا ڈر تھا، کیا تھا

دامنِ شام لہو کر گیا سورج کا ملال

رات زخمی رہی یا دردِ سحر تھا، کیا تھا

کیوں تِرے درد کو اس دل نے سنبھالا ایسے

کوئی تحفہ تھا، اثاثہ تھا، ثمر تھا، کیا تھا

قیمتِ غم تو تِرے اور بڑھا دی جس نے 

تیری پلکوں پہ وہ آنسو تھا، گُہر تھا، کیا تھا

شوخئ درد تکلّم بھی اسی کا ٹھہرا

لفظ شِیریں تھے یا لہجے کا اثر تھا، کیا تھا

کس سلیقے سے مجھے اس نے کِیا غرق بلال

اس کی آنکھوں میں تلاطم تھا بھنور تھا کیا تھا


طاہر بلال

No comments:

Post a Comment