Monday, 5 September 2022

حقہ پینے والے کی یاد میں

ماں باپ کی یادوں سے بھری ایک نظم آپ کی نذر


 حُقہ پینے والے کی یاد میں 


وہ دن بھی کتنے اچھے تھے

کبھی جب گھر کے آنگن میں لگے شہتوت کے نیچے 

مِری ماں جھاڑو دیتی تھیں

پرانی چارپائی جھاڑ کر پھر سے بچھاتی تھی

مِرے ابا کے حُقہ کی چِلم بھی جگمگاتی تھی

بہاریں مسکراتیں

کہکشائیں رقص کرتی تھیں

میں خود ماں سے لپٹ جاتا

کئی قسمیں اٹھاتا

خود ہی ان کو بھول بھی جاتا

وہ دن

ماضی کے دن کتنے سہانے تھے

مگر اب  شہر کے اپنے مسائل ہیں

بہاریں کھو چکی ہیں 

کہکشائیں بین کرتی ہیں

نہ ماں زندہ ہے

اور نہ صحن میں شہتوت کا پودا

نہ وہ حُقہ رہا باقی

نہ حُقہ پینے والے ہیں


امجد تجوانہ

No comments:

Post a Comment