ہے در بھی وہی اور گداگر بھی وہی ہیں
اس شہرِ غریباں کے مقدّر بھی وہی ہیں
اک وعدۂ فردا پہ بدن ہار دیا ہے
دنیا سے پرے حشر کے منظر بھی وہی ہیں
کھنچتا ہے وہی زائچہ ہر روز سفر میں
رستے بھی وہی پاؤں کے چکر بھی وہی ہیں
ہے شور اناالحق نہ کہیں صُورِ سرافیل
مُردے بھی وہی اور مجاور بھی وہی ہیں
جاری ہے وہی وردِ ہوس پھر سے لبوں پر
واعظ بھی وہی مسجد و منبر بھی وہی ہیں
چہرے ہیں وہی خلعت و دستار کے پیچھے
تعظیم میں خم ہوتے ہوئے سر بھی وہی ہیں
بیگانہ سا پھرتا ہوں میں کیوں اپنے وطن میں
گلیاں بھی وہی، شہر وہی گھر بھی وہی ہیں
وہ جو صفِ اغیار میں ہیں میرے مقابل
دیکھوں تو کھڑے میرے برابر بھی وہی ہیں
اب بچ کے کہاں جاؤ گے اس شہرِ غضب سے
اندر بھی وہی لوگ ہیں، باہر بھی وہی ہیں
سرمد صہبائی
No comments:
Post a Comment