تھی یہ میری آرزو کہ باغِ دل میں گل کھلیں
یوں مگر آئی خزاں کہ اُڑ گئیں سب بلبلیں
ہمسفر ہو گئے جدا اس زندگی کی دوڑ میں
بھٹکے بھٹکے راستے ہیں الجھی الجھی منزلیں
اس جہاں میں تب بھی جینے کی کوئی امید ہے
آگ لگ جائے چمن میں آشیانے جب جلیں
گردشِ دوراں پہ کیوں الزام میں عائد کروں
جھونپڑی میری جلا گئیں میری اپنی مشعلیں
دھیرے دھیرے آ کے اس نے رکھ دئیے آنکھوں پہ ہاتھ
سانسیں میری رک گئیں اور تیز ہو گئیں دھڑکنیں
گھر سے بے گھر ہو گئے لیکن تجھے نہ پا سکے
کوئی تو آ کر اب یہ کہہ دے آ عمر! اب گھر چلیں
عمر فاروق
No comments:
Post a Comment