اک نیا شوق پال رکھا ہے
خود کو مشکل میں ڈال رکھا ہے
آرزو کا جو ایک خانہ ہے
اس میں تیرا سوال رکھا ہے
سب کے چہرے بگاڑ دیتا ہے
دل کے شیشے میں بال رکھا ہے
جو بھی آتا ہے پھر نہیں جاتا
اس کی باتوں میں جال رکھا ہے
میں جو گِرتا تو چُور ہو جاتا
جانے کس نے سنبھال رکھا ہے
اور تو کچھ نہیں رہا باقی
دل میں تھوڑا ملال رکھا ہے
سب مِرے یار بنتے جاتے ہیں
بس یہی اک کمال رکھا ہے
بوجھ کاندھوں پہ فکرِ دنیا کا
خود کو ایسے نڈھال رکھا ہے
سال بے شک گزر گیا، لیکن
یاد میں نے وہ سال رکھا ہے
پُر خلوص آدمی زمانے میں
اب کہیں خال خال رکھا ہے
عیب میرے چھپا لیے احمد
مجھ کو اچھوں میں ڈال رکھا ہے
راحیل احمد
No comments:
Post a Comment