Saturday, 3 September 2022

اک نیا شوق پال رکھا ہے

 اک نیا شوق پال رکھا ہے

خود کو مشکل میں ڈال رکھا ہے

آرزو کا جو ایک خانہ ہے

اس میں تیرا سوال رکھا ہے

سب کے چہرے بگاڑ دیتا ہے

دل کے شیشے میں بال رکھا ہے

جو بھی آتا ہے پھر نہیں جاتا

اس کی باتوں میں جال رکھا ہے

میں جو گِرتا تو چُور ہو جاتا

جانے کس نے سنبھال رکھا ہے

اور تو کچھ نہیں رہا باقی

دل میں تھوڑا ملال رکھا ہے

سب مِرے یار بنتے جاتے ہیں

بس یہی اک کمال رکھا ہے

بوجھ کاندھوں پہ فکرِ دنیا کا

خود کو ایسے نڈھال رکھا ہے

سال بے شک گزر گیا، لیکن

یاد میں نے وہ سال رکھا ہے

پُر خلوص آدمی زمانے میں

اب کہیں خال خال رکھا ہے

عیب میرے چھپا لیے احمد

مجھ کو اچھوں میں ڈال رکھا ہے


راحیل احمد

No comments:

Post a Comment