قریب سے نہ گزر انتظار باقی رکھ
قرابتوں کا مگر اعتبار باقی رکھ
بکھرنا ہے تو فضا میں بکھیر دے خوشبو
حیا نظر میں، قدم میں وقار باقی رکھ
ہمیں ہمارے ہی خوابوں سے کون روکے گا
کھینچا ہوا ہے جو خط حصار باقی رکھ
خزاں سے صُلح برت کیونکہ وہ تو آئے گی
پھر اہتمام سے فصلِ بہار باقی رکھ
یہ کجکلاہ نئے وقت کے نہ ٹھہریں گے
کھنچی کمان مِرے شہریار باقی رکھ
مِٹے مِٹے سے نقوشِ قدم ہیں کچھ باقی
یہ خوشبوؤں میں بسی رہگزار باقی رکھ
یہ سرد و گرم جو ماحول کے تقاضے ہیں
بہ چشمِ نم، نفسِ شعلہ بار باقی رکھ
تکان ہے تو سنبھل جا مگر نہ اونگھ کبھی
سفر کی دھول بدن کا غبار باقی رکھ
یہ نو طرازیٔ معنی بھی ایک شے ہے عتیق
روایتوں سے بھی رشتے سنوار باقی رکھ
عتیق اثر
No comments:
Post a Comment