ماں جیسی ریاست
دن بھر مزدور
میرے جسم پہ
سفیدی کرتا رہتا ہے
قحبہ خانے کی عورت
رات کا بوسیدہ میک اپ
میرے جوتوں پہ تھوپتی رہتی ہے
اخباری ہاکر کی آواز، بسوں کے ہارن
ایدھی ایمبولینس کے نغمے
لاکھوں اذانوں
اور بیوی کے کہرام کی خامشی میرے کانوں میں
ڈیرے ڈالے بیٹھی ہے
مزدور، طالبِ علم اور لاپتہ افراد کے ورثاء
اپنے احتجاجی کیمپوں کی میخیں
میرے ہاتھوں میں گاڑتے رہتے ہیں
ریاستی کارندے
مجھ میں خواب آور گولیاں بھر کے
مجھے تجرباتی سٹریچر میں پھینک کے
دن بھر کی بخشش
سگریٹوں میں بھرتے رہتے ہیں
مسعود قمر
No comments:
Post a Comment