مچا ہوا ہے خداؤں کی ان کہی کا شور
مگر وہ گونج کہ کھا جائیگی سبھی کا شور
تمام "رات مہکتا" تھا اس کی "ٹیبل" پر
گلابِ تازہ کی خوشبو میں فروری کا شور
شجر کی تابِ سماعت پہ "داد" بنتی ہے
اے ناخداؤ! سمندر کو مت "سنا" دینا
ہماری ناؤ میں "اسباب" کی کمی کا شور
بڑے سلیقے سے آ کر "قضا" نے چاٹ لیا
زمیں کے صحن میں برپا تھا زندگی کا شور
بس ایک بار زمانے کے در پہ "دستک" دی
اب ایسے کون مچائے گھڑی گھڑی کا شور
نیلوفر افضل
No comments:
Post a Comment