علی کے شیروں میں سے اک شیر سندھ سے آئے گا" نعمت اللہ شاہ ولی"
ہمارے چھیتھڑوں میں سانس بھرنے کی یہ آخری امید بچی ہے
ہمارے کاندھوں پہ لہو کے قرض کا اتنا بوجھ ہے
کہ کمریں دوہری ہو چکی ہیں
ہم لاشیں ڈھوتے ڈھوتے تھک گئے ہیں
ہمارے ہاتھ سینوں سے جدا نہیں ہوتے
ہماری آنکھیں خون روتی آبشاریں ہیں
ہمارے دن ہماری راتوں سے بھیانک ہیں
ہماری مسجدوں کے میناروں سے پانچ وقت اذانیں بلند ہوتی ہیں
لیکن ہمارے بین اتنے اونچے ہیں کہ اذانیں سنائی نہیں پڑتیں
قرآن پڑھنے اور سننے کو من کرتا ہے، مگر اس کی تلاوت میں
نفرت اور فرقہ پرستی کا زہر بھر دیا گیا ہے
ہماری سماعت بم دھماکوں نے چھیل کر ضائع کر دی ہے
اب تو زخم کی تکلیف بھی نہیں ہوتی
ہماری مسجدیں، مدرسے، خانقاہیں، دربار، گلی، کوچے، بازار، گھر
کچھ بھی تو محفوظ نہیں ہے
ہمارے ہاتھ سے دِین اور دنیا دونوں جا چکے ہیں
ہماری بے حسی پر دشمن مسکراتا ہے
ہم تھک گئے ہیں نعمت اللہ شاہ ولی
کہاں ہے تیرا شیر علی؟ ہماری آخری امید
یونس تحسین
No comments:
Post a Comment