Tuesday, 2 August 2022

کھلے ہیں آگہی کے مجھ پہ در آہستہ آہستہ

 کھلے ہیں آگہی کے مجھ پہ در آہستہ آہستہ

ہوئی سارے زمانے کی خبر آہستہ آہستہ

ہمیشہ کروٹیں لیتی ہوئی محسوس ہوتی ہے

زمیں محور سے ہٹتی ہے مگر آہستہ آہستہ

کسی آہٹ سے کب کوئی مکاں مسمار ہوتا ہے

چٹخ کر ٹوٹتے ہیں بام و در آہستہ آہستہ

بلندی کی طرف ان کو ہوائیں لے کے جاتی ہیں

بناتے ہیں پرندے رہگزر آہستہ آہستہ

ہوا تبدیلیوں کی چل پڑی موسم بدلنے سے

ملیں گے اب نئے شام و سحر آہستہ آہستہ

خود اپنی ذات کے بارے میں بھی کب جانتا تھا میں

کھلے مجھ پر مِرے عیب و ہنر آہستہ آہستہ


نوید مرزا

No comments:

Post a Comment