بولنے کا نہیں چپ رہنے کا من چاہتا ہے
ایسے حالات میں تو لطف سخن چاہتا ہے
ایک تو روح بھی کافور صفت ہے اپنی
اور اب جسم بھی بے داغ کفن چاہتا ہے
میں وفاؤں کا پرستار ہوں لیکن مجھ سے
میرا محبوب زمانے کا چلن چاہتا ہے
تُو ادھر کیسے ارے چاندنی صورت والے
یہ وہ دھندہ ہے جو آنکھوں میں جلن چاہتا ہے
وصل کے بعد بھی پوری نہیں ہوتی خواہش
اور کچھ ہے جو یہ نادیدہ بدن چاہتا ہے
سُونے سُونے سے ہیں لفظوں کے شوالے کاشف
ایسا لگتا ہے کہ اظہار بدن چاہتا ہے
ابرار کاشف
No comments:
Post a Comment