أفکار پریشاں
اس کو بھی ڈر تھا مِرے عشق میں رُسوائی کا
شائبہ تک نہ تھا آنکھوں میں شناسائی کا
ایسے حالات سے دوچار ہے اب میرا چمن
قاتلوں کے لیے تمغہ ہے مسیحائی کا
عشق میں ہوتی نہیں حسن کی دریوزہ گری
ورنہ کیا معنیٰ ہو آیاتِ شکیبائی کا
مجھ کو حاصل نہ ہو دیدار کبھی سجدوں میں
مجھ سے چھن جائے نہ یہ ذوق جبیں سائی کا
میری یہ خوئے تواضع ہی مجھے لے ڈوبی
ورنہ استاد تھا میں قافیہ پیمائی کا
تیرے اشکوں سے سجاوٹ جو ہوئی محفل میں
حال بدتر ہوا ہر ایک تماشائی کا
گنگناتا ہے اکیلے ہی غزل لکھ لکھ کر
مشغلہ ڈھونڈ لیا راہی نے تنہائی کا
اسامہ ابن راہی
No comments:
Post a Comment