Thursday, 1 September 2022

خود سے اتنی بھی عداوت تو نہیں کر سکتا

 خود سے اتنی بھی عداوت تو نہیں کر سکتا

اب کوئی مجھ سے محبت تو نہیں کر سکتا

کیوں نبھائے گا وہ پیمانِ وفا مجھ سے کہ وہ

ساری دنیا سے بغاوت تو نہیں کر سکتا

گو وہ مجرم ہے مِرا پھر بھی کسی شخص سے میں

اپنے دلبر کی شکایت تو نہیں کر سکتا

دو گھڑی سانس تو لینے دے مجھے اے غمِ دہر

کوئی ہر آن مشقت تو نہیں کر سکتا

خاص ہوتا ہے کسی کا کوئی منظورِ نظر

کوئی ہر اک پہ عنایت تو نہیں کر سکتا

کیسے لکھوں میں اندھیرے کو اجالا کاشف

اپنے فن سے میں خیانت تو نہیں کر سکتا


کاشف رفیق

No comments:

Post a Comment