کون فریاد کسی کی بھی یہاں سنتا ہے
اک تصور ہے جو بس دل کی زباں سنتا ہے
سن لیا کرتے ہیں سب اہلِ وفا میری، مگر
جس کو سننا ہے ابھی تک وہ کہاں سنتا ہے
نامرادانہ صدا لوٹ گئی بھی ہے تو کیا
روح کو سلسلۂ کون و مکاں سنتا ہے
غم نہیں عالمِ انساں کی سماعت نہ ملے
چاند کافی ہے جو رودادِ جہاں سنتا ہے
منصفِ اعلیٰ سے مایوس نہیں اپنی امید
خوں میں ڈوبا ہوا جو سارا بیاں سنتا ہے
زخم ہے جس کی زیارت نہیں ہو پائی کبھی
پھر بھی سنتے ہیں اسے سوزِ نہاں سنتا ہے
ہم نے مانا کہ ہے زنداں سے پرے دنیا مگر
کوئی آوازۂ زنجیرِ گراں سنتا ہے
جانتا ہے وہ مِرے ظاہر و باطن کو طراز
وہ بہت ہے مِرا اظہارِ زیاں سنتا ہے
راشد طراز
No comments:
Post a Comment