Friday, 2 September 2022

ہم سے مل لیتے ہیں جو تیری طلب رکھتے ہیں

 ہم سے مل لیتے ہیں جو تیری طلب رکھتے ہیں

ہم تِرے بعد بھی جینے کا سبب رکھتے ہیں

دل وہی دل ہے جو سینے سے نکل کر دھڑکے

ورنہ رکھنے کو یہاں سینے میں سب رکھتے ہیں

دوست تو دوست ہے، ہم اپنے لیے دشمن بھی

اپنے معیار کا رکھتے ہیں کہ جب رکھتے ہیں

جا کے دہلیز سے دیدار اٹھا لاتا ہوں

دیکھیے اب کے یہ خیرات وہ کب رکھتے ہیں

دن میں آ جاتا ہوں میں، رات میں آ جاتا ہوں

میں تِرا ذکر ہوں، ہر بات میں آ جاتا ہوں

شور جب شہرِ خیالات میں بڑھ جاتا ہے

اٹھ کے میں اپنے مضافات میں آ جاتا ہوں

تُو بھی ہر بار مجھے توڑ کے رکھ دیتا ہے

میں بھی چپ چاپ ترے ہاتھ میں آ جاتا ہوں

مشکلوں سے میں نکل جاؤں تو گھبراتا ہوں

لوٹ کر پھر انہی حالات میں آ جاتا ہوں

اس کے چہرے سے خبر ملتی نہیں اندر کی

میں ہی ایسا ہوں کہ جذبات میں آ جاتا ہوں


نعیم ضرار

No comments:

Post a Comment