سوٹ کو ماضی کا اک افسانہ کہہ
مجھ سے مسٹر کو بھی اب مولانہ کھ
دوستی باہر حسيناؤں سے رکھ
گھر ميں بيوی کو چراغ خانہ کہہ
دست پنجہ لے جو مطلب کے لیے
ايسے دستِ يار کو دستانہ کہہ
جو بيوٹي پارلر ميں خرچ ہو
اس کو اپنے حسن کا فطرانہ کہہ
فيس بابو کو اگر دينی پڑے
اس کو رشوت مت سمجھ نذرانہ کہہ
حسن کی گر ديکھنی ہو برہمی
ايک دن نسرين کو رخسانہ کہہ
ہر جواں عورت کو اپنی باجی مت بنا
جو معمر ہے انہيں آپا نہ کہہ
صرف اتنا کر کہ مجھ کو مت سنا
بيس غزليں شوق سے روزانہ کہہ
قول مرداں جان داروں سرفراز
بات سچي ہو تو بے باکانہ کہہ
سرفراز شاہد
No comments:
Post a Comment