سر بزم احترام ان کا نہ کرتے ہم تو کیا کرتے
یقینِ وعدۂ فردا نہ کرتے ہم تو کیا کرتے
جہاںِ رنگ و بُو میں پھیلتی جاتی تھی بد ذوقی
شراب و شعر کا چرچا نہ کرتے ہم تو کیا کرتے
ہمِیں اک تختۂ مشقِ ستم تھے سارے عالم میں
تمہارے جور کا شکوہ نہ کرتے ہم تو کیا کرتے
ہوئی جرأت نہ جب اہلِ ہوس کو لب کُشائی کی
تمہارے عشق کا دعویٰ نہ کرتے ہم تو کیا کرتے
کوئی شے اور اس قابل نہ تھی بازارِ دنیا میں
محبت کا اگر سودا نہ کرتے ہم تو کیا کرتے
تعلق تھا بہت درپردہ میخانے سے حضرت کو
جنابِ شیخ کی پروا نہ کرتے ہم تو کیا کرتے
لکھا تھا جب مقدر ہی میں ساحر داغِ ناکامی
تلاشِ منزلِ عنقا نہ کرتے ہم تو کیا کرتے
ساحر سیالکوٹی
رگھبیر داس
No comments:
Post a Comment