تُو کون ہے جو اس کی کمی پوری کرے گا
وہ آئے گا تو اپنی "کمی" پوری کرے گا
اک "آدھ" اگر ہوتا تو ہم "مان" بھی لیتے
اے شخص تُو کس کس کی کمی پوری کرے گا
بیٹھے گا "تری" راہ میں گلدستہ اٹھائے
تجھ سا ہے مِری جان مگر تُو تو نہیں ہے
یہ پھول تِری کتنی کمی پوری کرے گا؟
اک وصل ابھی اور بھی درکار ہے فرہاد
اس بار تو وہ پچھلی کمی پوری کرے گا
احمد فرہاد
No comments:
Post a Comment