Thursday, 1 September 2022

مرقد گمنام سے سید علی گیلانی کا پیغام

 مرقدِ گمنام سے سید علی گیلانی کا پیغام


سو تم یہ سوچتے ہو کہ

اگر تم میرے اس فانی بدن کو

میرے لوگوں، میرے بچوں کی

نگاہوں سے پرے جا کر

کہیں پر دفن کر دو گے

تو وادی میں سُلگتی آگ

اور آنکھوں میں لَو دیتے چراغوں کو

بُجھانے میں تمہیں آسانیاں ہوں گی

سو تم یہ سوچتے ہو کہ

شجاعت، حریت اور جرأتوں کی داستانیں

جواں جذبے، جواں سوچیں

ہر اک دل میں چھپی اک جستجو آزاد ہونے کی

مِری مرہونِ منت ہے

مِری آنکھوں کے بند ہونے سے یہ سب

خوابِ ماضی کی طرح متروک ٹھہرے گا

تمہارے پنجۂ خونیں میں جکڑی یہ حسیں وادی

یہ جھیلیں، بستیاں، کوہسار، جھرنے

سبھی محصور ٹھہریں گے

تمہارا سوچنا اپنی جگہ ہے

کہ ظالم اور جابر حکمراں

ایسا ہمیشہ سوچتے ہیں

مگر تاریخ انسانی کی بوسیدہ کتابیں

تمہارے جیسے لاکھوں حکمرانوں کے

مقابر پر سجی وہ تختیاں کچھ اور کہتی ہیں

دلوں پر حکمرانی جبر و ظلمت سے نہیں ہوتی

دلوں میں جب کبھی اک جوت آزادی کی

بُکل مار لیتی ہے

تو فوجیں اور سنگینیں کسی بھی طور

پھر ان کو مسخّر کر نہیں سکتیں

بہاریں اک نہ اک دن آ کے رہتی ہیں

کہ فصلِ گُل کی خُوشبو

اونچی باڑوں سے نہیں رکتی

ہوائیں سب قبیلوں، بند دروازوں کا

زِندانوں کا جادو توڑ دیتی ہیں

دہائیوں اور صدیوں پر محیط عہدِ غلامی بھی

بہت پیچھے کہیں پہ چھوڑ دیتی ہیں

تمہیں حق ہے کہ تم جو چاہو سوچو

مگر یہ یاد رکھنا

مِرا گمنام مرقد ہی

نئی تحریک آزادی کو لَو دے گا

یہی تحریک ہو گی جو تمہیں مجبور کر دے گی

یہ جھیلیں، یہ شجر، کوہسار، جھرنے، وادیاں ساری

تمہارے جبر و ظلمت کی حدوں سے

دور کر دے گی


فواد حسن فواد

No comments:

Post a Comment