ٹپکتا ہے مرے اندر لہو جن آسمانوں سے
کوئی تو ربط ہے ان کا زمیں کی داستانوں سے
دھواں اٹھنے لگا جب سنگ مرمر کی چٹانوں سے
ستاروں نے ہمیں آواز دی کچے مکانوں سے
سمندر کے پرندو ساحلوں کو لوٹ بھی جاؤ
بہت ٹکرا لیے ہو تم ہمارے بادبانوں سے
وہ اندر کا سفر تھا یا سراب آرزو یارو
ہمارا فاصلہ بڑھتا گیا دونوں جہانوں سے
لچکتے بازوؤں کا لمس تو پر کیف تھا طلعت
مگر واقف نہ تھے ہم پتھروں کی داستانوں سے
طلعت عرفانی
تلک راج
No comments:
Post a Comment