Saturday, 8 November 2025

ٹپکتا ہے مرے اندر لہو جن آسمانوں سے

 ٹپکتا ہے مرے اندر لہو جن آسمانوں سے

کوئی تو ربط ہے ان کا زمیں کی داستانوں سے

دھواں اٹھنے لگا جب سنگ مرمر کی چٹانوں سے

ستاروں نے ہمیں آواز دی کچے مکانوں سے

سمندر کے پرندو ساحلوں کو لوٹ بھی جاؤ

بہت ٹکرا لیے ہو تم ہمارے بادبانوں سے

وہ اندر کا سفر تھا یا سراب آرزو یارو

ہمارا فاصلہ بڑھتا گیا دونوں جہانوں سے

لچکتے بازوؤں کا لمس تو پر کیف تھا طلعت

مگر واقف نہ تھے ہم پتھروں کی داستانوں سے


طلعت عرفانی

تلک راج

No comments:

Post a Comment