دل سے اتر گئے ہیں وہ نہ ان کا نام لے
کچھ پل تو جی ہمارا سکوں میں قیام لے
یہ دھندلائے چہروں پہ ٹھہرا ہوا سا کرب
کوئی بڑھے اور ان کا ذرا ہاتھ تھام لے
تجھ کو ملی ہے گر کوئی نعمت تو نہ اکڑ
بہتر ہے اس سے دنیا میں اچھا سا کام لے
دل مضطرب تو پہلے سے تھا الجھنوں میں گم
اور اس پہ پھر پڑے یہ محبت کے معاملے
کرنی ہیں جب وفائیں تو بے غرض ہو کے کر
یہ تو چاہتوں کے بھی اب کوئی دام لے
اقصیٰ فیض
No comments:
Post a Comment