اک شبِ تاریک ہم منزل پہ یوں لائے گئے
قید سے نکلے تو اک مقتل میں پہنچائے گئے
ہر قدم پر خون بکھرا تھا ہماری راہ پر
غالباً کچھ لوگ ادھر پہلے بھی لے جائے گئے
ایک تابندہ کرن کی آرزو کے جرم میں
سینکڑوں سورج مِرے سینے میں دہکائے گئے
مل گیا دنیا کو میرے قتل کا اک دن سراغ
جس جگہ میں کھو گیا تھا تم وہیں پائے گئے
میرے حق میں جس کسی کے بھی دعا کو ہاتھ اٹھے
اس کی چوکھٹ تک مِری تقدیر کے سائے گئے
ہائے یہ دن جو نہیں لیتے کہیں جانے کا نام
وائے وہ دن جو پلوں میں ہو گئے آئے گئے
چشمِ تر میں آج تک زندہ ہے طلعت وہ گھڑی
جب صلیبوں پر مِرے جذبات لٹکائے گئے
طلعت عرفانی
تلک راج
No comments:
Post a Comment