وہ مسیحا نہ بنا، ہم نے بھی "خواہش" نہیں کی
اپنی شرطوں پہ جیے ،اس سے گزارش نہیں کی
جانے کیوں بجھنے لگے اول شب سارے چراغ
آندھیوں نے بھی اگرچہ کوئی سازش نہیں کی
اب کہ ہم نے بھی دیا ترکِ تعلق کا جواب
اس نے "ظاہر" نہ کیا، اپنا "پشیماں" ہونا
ہم بھی انجان رہے، ہم نے بھی پُرسش نہیں کی
ہم تو سنتے تھے کہ مل جاتے ہیں بچھڑے ہوئے لوگ
تُو جو بچھڑا ہے تو کیا وقت نے گردش نہیں کی
عنبرین حسیب عنبر
No comments:
Post a Comment