Thursday, 1 September 2022

کسی سے دل لگی میں ہی محبت ہم بھی کر بیٹھے

 کسی سے دل لگی میں ہی محبت ہم بھی کر بیٹھے

محبت تو محبت تھی،۔ سکوں برباد کر بیٹھے

سزا اتنی کڑی کیوں ہے خطا تو صرف اتنی تھی

نظر اس نے اٹھائی تو مِلا ہم بھی نظر بیٹھے

اندھیرے میں بھی جیتے تھے مگر نجانے ہم کیونکر

ضیاء پانے کی خواہش میں جلا اپنا ہی گھر بیٹھے

کبھی دنیا کی الجھن سے چھڑا دامن اکیلے میں

چھما چھم برسے نینوں سے کفوں کو کر کے تر بیٹھے

اسے مرضِ محبت ہے، کہا آ کر طبیبوں نے

میری حالت جو دیکھی تو پکڑ کر اپنا سر بیٹھے

کبھی ناکام الفت نہ کرے کوئی عمر، ورنہ

وہ اپنے آپ دامن میں یقیناً آگ بھر بیٹھے


عمر فاروق

No comments:

Post a Comment