بے لوث محبت کا "صلہ" ڈھونڈھ رہا ہوں
ناداں ہوں یہ اس شہر میں کیا ڈھونڈ رہا ہوں
اک موڑ پہ ٹوٹے ہوئے کھنڈر سے مکاں میں
گزرے ہوئے لمحوں کا "پتا" ڈھونڈ رہا ہوں
مدت سے یہ خنجر مرے سینے میں ہے اور میں
دیوانہ" جسے سنگ تراشی کا "جنوں" ہے"
کہتا ہے کہ "پتھر" میں "خدا" ڈھونڈ رہا ہوں
منصف ترے انصاف سے واقف ہوں تبھی تو
ناکردہ "گناہوں" کی "سزا" ڈھونڈ رہا ہوں
یہ شام اور اس پر تری یادوں کی حلاوت
اک جام میں دو شے کا نشہ ڈھونڈ رہا ہوں
نفس انبالوی
No comments:
Post a Comment