ازل سے مرد ظالم ہے
مِری بچی مِری معصوم سی بچی
تجھے سب کچھ بتاؤں گا
میں تیرا باپ ہوں لیکن
تجھے مردوں کا میں دُکھڑا سناؤں گا
کہ جیسے بیٹیاں سسرال سے آ کر سناتی ہیں
کہ جیسے روٹیوں کے قصے رو رو کر بتاتی ہیں
کہ کیسے برتنوں کے ٹوٹنے پر ڈانٹ پڑتی ہے
کہ گھر آ کر بتاتی ہیں، مِرا شوہر نہیں اچھا
خسر میرا نہیں سچا، بڑا ظالم گھرانا ہے
مجھے رہنا یہیں ہے بس، مجھے واپس نہیں جانا
کبھی ابا سے کہتی ہیں، کبھی اماں سے کہتی ہیں
کبھی بھیا سے کہتی ہیں، کبھی بہنوں سے کہتی ہیں
مگر کچھ دن گزرتے ہی وہ بھابی سے جھگڑتی ہیں
وہ بھیا سے بھی لڑتی ہیں، خفا اماں سے ہوتی ہیں
الگ بہنوں سے رہتی ہیں
مگر کچھ دن گزرتے ہی وہ پھر ابا سے کہتی ہیں
مجھے تم چھوڑ آؤ اب، مِری سسرال میں مجھ کو
یہاں میں رہ نہیں سکتی
بِنا شوہر کے اپنے جی نہیں سکتی
مِرا سسرال ہی میرا، حقیقی بس گھرانا ہے
مکلّف آپ اب میرے نہیں ہیں
مکلّف اب مِرا شوہر، مِرا سرتاج ہے ابا
مِری بچی مِری معصوم سی بچی
کہانی ایک جیسی ہے، ڈراما ایک جیسا ہے
ازل سے ہی یہاں عورت کی بس عورت ہی دشمن ہے
مگر پھر بھی، ازل سے کہہ رہے ہیں یہ جہاں والے
ازل سے مرد ظالم تھا، ازل سے مرد ظالم ہے
عبدالمنان صمدی
No comments:
Post a Comment