کہا ہے کس نے جہاں میں خدا نہیں ملتا
خلوص شرط ہے ڈھونڈو تو کیا نہیں ملتا
ہر ایک جسم کی تخلیق ایک جیسی ہے
ہر ایک چہرے سے کیوں دوسرا نہیں ملتا
کچھ ایسے موڑ بھی آئے وفا کی راہوں میں
جہاں سے آگے خود اپنا پتا نہیں ملتا
ہر اک جفا ہے تمہاری ہر اک جفا سے الگ
تمہارے جیسا کوئی با وفا نہیں ملتا
میں پھر رہا ہوں جبیں میں سمیٹ کر سجدے
مگر کہیں بھی ترا نقش پا نہیں ملتا
وہی ہے گاؤں وہی میں وہی ہے پگڈنڈی
بس اک کمی ہے ترا نقش پا نہیں ملتا
وفا کا شوق مبارک وفا کرو لیکن
رہے خیال وفا کا صلہ نہیں ملتا
تمہارا عکس ہے محفوظ جس میں صدیوں سے
نہ جانے کیوں وہی اک آئینہ نہیں ملتا
ہم آ کے گاؤں سے پچھتائے شہر میں راہی
یہاں کسی کا بھی اصلی پتہ نہیں ملتا
ڈاکٹر علی الدین احمد راہی
No comments:
Post a Comment