Saturday, 13 December 2025

کہا ہے کس نے جہاں میں خدا نہیں ملتا

 کہا ہے کس نے جہاں میں خدا نہیں ملتا

خلوص شرط ہے ڈھونڈو تو کیا نہیں ملتا

ہر ایک جسم کی تخلیق ایک جیسی ہے

ہر ایک چہرے سے کیوں دوسرا نہیں ملتا

کچھ ایسے موڑ بھی آئے وفا کی راہوں میں

جہاں سے آگے خود اپنا پتا نہیں ملتا

ہر اک جفا ہے تمہاری ہر اک جفا سے الگ

تمہارے جیسا کوئی با وفا نہیں ملتا

میں پھر رہا ہوں جبیں میں سمیٹ کر سجدے

مگر کہیں بھی ترا نقش پا نہیں ملتا

وہی ہے گاؤں وہی میں وہی ہے پگڈنڈی

بس اک کمی ہے ترا نقش پا نہیں ملتا

وفا کا شوق مبارک وفا کرو لیکن

رہے خیال وفا کا صلہ نہیں ملتا

تمہارا عکس ہے محفوظ جس میں صدیوں سے

نہ جانے کیوں وہی اک آئینہ نہیں ملتا

ہم آ کے گاؤں سے پچھتائے شہر میں راہی

یہاں کسی کا بھی اصلی پتہ نہیں ملتا


ڈاکٹر علی الدین احمد راہی

No comments:

Post a Comment