Friday 15 February 2019

بڑھا لے اپنی سواری نہ اب دکان لگا

بڑھا لے اپنی سواری نہ اب دکان لگا 
وہ صور پھونک رہا ہے زمیں سے کان لگا
بدن کی قید سے باہر نکلنا ہے تجھ کو
پہاڑ کاٹنا مشکل ہے دوست، جان لگا
سلگتی ریت پہ آ کر گِرا وجود اس کا
وہ تیغ کھینچ رہا تھا کہ تیر آن لگا
مہ و نجوم بدلتے ہیں روشنی کیسے
فلک کو دیکھتے رہنے میں اپنا دھیان لگا
جوے میں ہاری ہوئی چیز مل نہیں سکتی
کہا تھا کس نے کہ داؤ پہ اپنی جان لگا
پھر ایک روز قبیلے کی اپنے دعوت کر
غذا میں زہر ملا کر لذیذ خوان لگا
فلک پہ کھینچ لکیریں اداس منظر کی
زمینِ دل پہ نہ یوں بے طرح نشان لگا
بنا رہا ہے جو تصویرِ کائنات آزؔر
خلا و خاک کے مابین آسمان لگا

دلاور علی آزر

No comments:

Post a Comment