Tuesday 9 October 2018

کشیدہ سر سے توقع عبث جھکاؤ کی تھی

کشیدہ سر سے توقع عبث جھکاؤ کی تھی 
بگڑ گیا ہوں کہ صورت یہی بناؤ کی تھی 
وہ جس گھمنڈ سے بچھڑا گِلہ تو اس کا ہے 
کہ ساری بات محبت میں رکھ رکھاؤ کی تھی 
وہ مجھ سے پیار نہ کرتا تو اور کیا کرتا 
کہ دشمنی میں بھی شدت اسی لگاؤ کی تھی 
مگر یہ درد طلب بھی سراب ہی نکلا 
وفا کی لہر بھی جذبات کے بہاؤ کی تھی 
اکیلے پار اتر کر یہ ناخدا نے کہا 
مسافرو! یہی قسمت شکستہ ناؤ کی تھی 
چراغِ جاں کو کہاں تک بچا کے ہم رکھتے 
ہوا بھی تیز تھی منزل بھی چل چلاؤ کی تھی 
میں زندگی سے نبرد آزما رہا ہوں فرازؔ 
میں جانتا تھا یہی راہ اک بچاؤ کی تھی 

احمد فراز

No comments:

Post a Comment