Saturday 12 May 2018

دل بضد ہے کہ اسے چھو کے سراہا جائے

دل بضد ہے کہ اسے چھو کے سراہا جائے
آنکھ کہتی ہے اسے دور سے چاہا جائے
تُو یہاں بیٹھ مرے جسم، اسے مل آؤں
یہ نہ ہو تو بھی مِرے ساتھ گناہا جائے
کیا بعید ایسی کوئی شام زمیں پر اترے
جب دِیا ٹوٹی ہوئی شب سے بیاہا جائے
جس طرح بھی ہو مِرے دل سے نکالو اس کو
یہ نہ ہو عشق میرے ساتھ نکاحا جائے
میں محبت کے خرابے سے نکل آیا ہوں
اب کسی موڑ پہ بھی مجھ کو نہ چاہا جائے

میثم علی آغا 

No comments:

Post a Comment