Wednesday 4 July 2012

اور کچھ نہیں بدلا

اور کچھ نہیں بدلا

آج بعد مدت کے
میں نے اُس کو دیکھا ہے
وہ ذرا نہیں بدلی
اب بھی اپنی آنکھوں میں
سو سوال رکھتی ہے
چھوٹی چھوٹی باتوں پہ
اب بھی کھل کے ہنستی ہے
اب بھی اُس کے لہجے میں
وہ ہی کھنکھناہٹ ہے
وہ ذرا نہیں بدلی
اب بھی اُس کی پلکوں کے
سائے گیلے رہتے ہیں
اب بھی اُس کی سوچوں میں
میرا نام رہتا ہے
اب بھی میری خاطر وہ
اُس طرح ہی پاگل ہے
وہ ذرا نہیں بدلی
آج بعد مدت کے
میں نے اُس کو دیکھا ہے
تو مجھے بھی لگتا ہے
میں بھی اُس کی چاہت میں
اُس طرح ہی پاگل ہوں
بعد اتنی مدت کے
اور کچھ نہیں بدلا
جُز ہمارے رستوں کے
اور کچھ نہیں بدلا

عاطف سعید

No comments:

Post a Comment