Wednesday 4 July 2012

فاصلے ایسے بھی ہونگے یہ کبھی سوچا نہ تھا

فاصلے ایسے بھی ہوں گے یہ کبھی سوچا نہ تھا
سامنے بیٹھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھا
خود چڑھا رکھے تھے تن پر اجنبیت کے غلاف
ورنہ کب ایک دوسرے کو ہم نے پہچانا نہ تھا
وہ کہ خوشبو کی طرح پھیلا تھا میرے چار سُو
میں اسے محسوس کر سکتا تھا چُھو سکتا نہ تھا
رات بھر پچھلی ہی آہٹ کان میں آتی رہی
جھانک کر دیکھا گلی میں کوئی بھی آیا نہ تھا
عکس تو موجود تھا پر عکس تنہائی کا تھا
آئینہ تو تھا مگر اس میں تیرا چہرا نہ تھا
آج اس نے درد بھی اپنے علیحدہ کر لئے
آج میں رویا تو میرا ساتھ وہ رویا نہ تھا
یہ سبھی ویرانیاں اس کے جُدا ہونے سے تھیں
آنکھ دُھندلائی ہوئی تھی شہر دُھندلایا نہ تھا
سینکڑوں طُوفان لفظوں کے دبے تھے زیرِ لب
ایک پتھر تھا خموشی کا جو ہلتا نہ تھا
یاد کر کے اور بھی تکلیف ہوتی تھی عدیمؔ
بُھول جانے کی سوا اب کوئی بھی چارہ نہ تھا

 عدیم ہاشمی

No comments:

Post a Comment