Monday 23 July 2012

کھلا ہے جھوٹ کا بازار آؤ سچ بولیں

کُھلا ہے جُھوٹ کا بازار، آؤ سچ بولیں
نہ ہو بلا سے خریدار، آؤ سچ بولیں
سکُوت چھایا ہے انسانیت کی قدروں پر
یہی ہے موقعِ اِظہار، آؤ سچ بولیں
ہمیں گواہ بنایا ہے وقت نے
بنامِ عظمتِ کِردار، آؤ سچ بولیں
سُنا ہے وقت کا حاکم بڑا ہی مُنصِف ہے
پُکار کر سرِ دربار، آؤ سچ بولیں
تمام شہر میں ایک بھی منصُور نہیں
کہیں گے کیا رَسَن و دار، آؤ سچ بولیں
جو وصف ہم میں نہیں کیوں کریں کسی میں تلاش
اگر ضمیر ہے بیدار، آؤ سچ بولیں
چُھپائے سے کہیں چُھپتے ہیں داغ چہروں کے
نظر ہے آئینۂ بردار، آؤ سچ بولیں
قتیلؔ جِن پہ سدا پتھروں کو پیار آیا
کِدھر گئے وہ گنہگار، آؤ سچ بولیں

قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment