Saturday 7 July 2012

وفور شوق میں جب بھی کلام کرتے ہیں

وفورِ شوق میں جب بھی کلام کرتے ہیں 
تو حرف حرف کو حُسنِ تمام کرتے ہیں 
گَھنے درختوں کے سائے کی عمر لمبی ہو
کہ ان کے نیچے مسافر قیام کرتے ہیں 
اُسے پسند نہیں خواب کا حوالہ بھی
تو ہم بھی آنکھ پہ نیندیں حرام کرتے ہیں 
نہ خُوشبُوؤں کو پتہ ہے نہ رنگ جانتے ہیں 
پرند، پُھولوں سے کیسے کلام کرتے ہیں؟
رواں دواں ہیں ہوا پر سواریاں کیسی؟
جنہیں درخت بھی جُھک کر سلام کرتے ہیں 
چمن میں جب سے اسے سیر کرتے دیکھ لیا
اُسی ادا سے غزالاں خرام کرتے ہیں 
اب اس کو یاد نہ ہو گا ہمارا چہرہ بھی
تمام شاعری ہم جس کے نام کرتے ہیں 

منظور ہاشمی

No comments:

Post a Comment